افسوس کہ دنداں [1] کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت
کافی ہے نشانی تِری، [2] چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ (شایع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور 1983 ) میں لفظ دندان آیا ہے (جویریہ مسعود)
مزید: نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں "دندان" کے بجائے "دیداں" چھپا ہے۔ " دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں، اس کی جمع "دود" ہے اور جمع الجمع "دیدان" ۔ یہ بات خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے کہ قبر میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہو جاتا ہے، انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے کیڑوں کی زیادہ رغبت کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوئے محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی ناقدری کا ماتم ہے کہ جو انگلی عقدِ گہر کی قابل تھی وہ حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے تشبیہ دینا مذاقِ سلیم کو مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خاں)