آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک [1]
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب، اور تمنّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل!
گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک [2]
غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
- اکثر قدیم نسخوں میں ’ہوتے تک‘ ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج قرأت ’ہونے تک‘ ہی دی گئی ہے اس لئے اسی کو قابلِ ترجیح قرار دیا گیا ہے۔
مزید: مالک رام صاحب نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوئے، ان میں ردیف "ہوتے تک" ہے۔ راقم الحروف (حامد علی خاں) کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر مولانا غلام رسول مہر نے "ہونے تک" کی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل پیش کی ہے حالانکہ سہوِ کتابت کہیں بھی خارج از امکان نہیں۔ البتہ مالک رام صاحب نے قدیم نسخوں میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف "ہونے تک" درج ہے ۔ راقم الحروف (حامد علی خاں) کی رائے میں یہ بھی سہوِ کتابت ہے یا تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر اہلِ ذوق "ہونے تک" کو صوتی لحاظ سے پسندیدہ سمجھتے ہیں مگر اپنی پسند غالب کے کلام کو عمداً بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاحب نے تحریر فرمایا ہے: "عرشی صاحب نے اب بھی ردیف "ہونے تک" ہی رکھی ہے " عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے، اس میں مولانا کے مشاہدے کے بر عکس اس غزل کی ردیف "ہوتے تک" ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (حامد علی خاں)
- نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں ’ہم پہ یہ بھاری ہیں‘ (اعجاز عبید)