ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل

ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل

آزادیِ نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہوائے گُل

جو تھا، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے وائے، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل!

خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو
رکھتا ہو مثلِ سایۂ گُل، سر بہ پائے گُل

ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نَفَسِ عطر سائے گُل

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے
مینائے بے شراب و دلِ بے ہوائے گُل

سطوت سے تیرے جلوۂ حُسنِ غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گُل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

غالبؔ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل