مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں

حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

رنجِ نومیدیِ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

آئینہ دام کو سبزے [1] میں چھپاتا ہے عبث
کہ پری زادِ نظر قابلِ تسخیر نہیں

مثلِ گُل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام
تیرا ترکش ہی کچھ آبِستنِ تیر نہیں

جب کرم رخصتِ بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجُز خجلتِ تقصیر نہیں

میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ [2]
"آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں"

  1. نسخۂ حمیدیہ میں " پردے" بجائے "سبزے" (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: ریختے کا وہ ظہوری ہے، بقولِ ناسخ (جویریہ مسعود)