دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب [1] میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں[2]
طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

  1. جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنیِ کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہے آس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یائے معروف ہی یائے مجہول (بڑی ے)کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لئے یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی (اعجاز عبید)
  2. بعض نسخوں میں "اور یاں" چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں "اور یہاں" درج ہے۔ (حامد علی خان)
    مزید: ہم نے اس نسخے میں "اور یاں" کو ترجیح دی ہے۔ (جویریہ مسعود)