فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم، جوہر تیغِ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطفِ زخمِ انتظار اے دل
سوادِ زخمِ مرہم [1] مردمک ہے چشمِ سوزن میں

دل و دین و خرد تاراجِ نازِ جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہرِ آئینہ خَیلِ مور خرمن میں

نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں

ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مِرا [2] ہر قطرہ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکو ہش مانعِ بے ربطیِ شورِ جنوں آئی
ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جَیب و دامن میں

ہوئے اُس مِہر وَش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پَرافشاں جوہر آئینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں

اسدؔ زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں
خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "سویدا داغِ مرہم" بجائے " سوادِ زخمِ مرہم" (جویریہ مسعود)
  2. اکثر قدیم نسخوں میں "مرا" کی جگہ "مِرے" چھپا ہے اور شارحین نے بلا چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کردی ہے۔ قدیم نسخوں میں صرف نسخۂ حمیدیہ میں "مِرا" چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس سے شعر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ ۔ (حامد علی خان)