ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں

ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں

نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ[1]
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں، نے دامِ چیدہ ہوں

جو چاہیے، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے ناشنیدہ ہوں

اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے [2] میں مَیں برگزیدہ ہوں

ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں [3]

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخیِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں [4]

ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں[5]

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

  1. نسخۂ مہر میں "رابطہ" کی جگہ" واسطہ"۔ (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ بھوپال میں اس زمین کی دو غزلیں شامل ہیں لیکن ایک یہ شعر اور ایک (دیکھیں فٹ نوٹ نمبر 82) شعر ہی اس میں درج ہیں۔۔ (اعجاز عبید)
  2. کچھ نسخوں میں 'فرقے' بجائے "زمرے" (جویریہ مسعود)
  3. مشہور شعر ہے مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود)
  4. یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود)
  5. یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود) دیکھیں فٹ نوٹ نمبر 78