رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار [1]
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
مزید: بعض ما بعد نسخوں میں "بیمار دار" کی جگہ "تیمار دار" چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مطبوعہ 1862 اور اس کے قریبی عہد کے جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے، ان سب میں "بیمار دار چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتاً جدید نسخوں میں بھی "بیمار دار "ہی درج ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں "تیماردار" کا اندراج شاید سہوِ کتابت ہے۔ نسخۂ مہر میں بھی "تیماردار" ممکن ہے، یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں "تیماردار" غالباً اس لیے لکھا ہے کہ آج کل یہ لفظ اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر "بیمار دار" اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر مفہوم ہے جو تیمار اور تیماردار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ علاوہ ازیں غالب کا کوئی لفظ عمداً بدلنے سے احتراز واجب ہے۔ (حامد علی خان)