بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو

[1]

بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو

تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو

بے تاب ہوں بلا سے، کن [2] آنکھوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے رازدار
میں سر بکف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو

میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں
پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو

وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس
ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو

گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی
وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام [3] میں

اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں
مجھ پر جو چشمِ ساقیِ بیت الحرام ہو

پیرانہ سال غالبؔ میکش کرے گا کیا
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو

  1. نوٹ: غلام رسول مہر کو شک ہے کہ یہ غزل غالبؔ کی نہیں (جویریہ مسعود)
  2. کَن
  3. اس لفظ کا ایک املا ازدحام بھی ہے (جویریہ مسعود)