حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ نا تمامی