گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے
ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے
مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین [1] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے
وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے