جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ [1] آب کو فرصت روانی کی

پس از مردن [2] بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

نہ کھینچ اے دستِ سعیِ نارسا زلفِ تمنّا کو
پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانیؔ کی

کماں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں، انصاف بہتر ہے
نہ کھینچے طاقتِ خمیازہ تہمت ناتوانی کی

  1. نسخۂ طاہر میں " زنجیرِ موجِ آب" (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں غالباً سہوِ کاتب سے "پسِ مردن" چھپا ہے باقی نسخوں میں "پس از مردن" ہے (حامد علی خان)