بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب [1] آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ ری [2] تیری تندیِ خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے
اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق
جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ [3] سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے