پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

دیکھو اے ساکنانِ خطّۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی

سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی

کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ
شاہِ دیں دار [1] نے شفا پائی

  1. اصل نسخے میں املا ہے ’دیندار‘ جب کہ تقطیع میں نون غنہ آتا ہے اس لئے تلفّظ کی وضاحت کے لئے یہاں ’دیں دار‘ لکھا گیا ہے (اعجاز عبید)