ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری [1] رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا، بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے، شبِ تنہائی میں
صورتِ دُود، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو، سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے، جادۂ صحرائے جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو! [2]
پُر ہے سائے کی طرح، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں، گر تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ، مثلِ گُلِ شمع، پریشاں مجھ سے

بیکسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت، ہے ہے!
سایہ خُورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں، تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے، اسدؔ!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے

  1. بعض نسخوں میں "میری " کی جگہ یہاں "مِری" چھپا ہے مگر یہاں "میری" زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اکثر نسخوں میں "میری" ہی چھپا ہے (حامد علی خاں)
  2. ہو جو۔ ہو جیو۔ یہ "ہو جو" نہیں ہے۔ جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ "ہُو" بہ واؤ معروف بولا جاتا ہے (حامد علی خاں)