فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی [1] کوئی شے نہیں ہے
ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے"، نہیں ہے
شادی سے گُذر کہ، غم نہ ہووے [2]
اُردی جو نہ ہو، تو دَے نہیں ہے
کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد!
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے
[3] انجا، شمارِ غم نہ پوچھو
یہ مصرفِ تا بکَے نہیں ہے
جس دل میں کہ "تا بکَے" سما جائے
واں عزّتِ تختِ کَے نہیں ہے
ہستی ہے، نہ کچھ عَدم ہے، غالبؔ!
آخر تُو کیا ہے، ”اَے نہیں ہے؟”