فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی [1] کوئی شے نہیں ہے

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے"، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ، غم نہ ہووے [2]
اُردی جو نہ ہو، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد!
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

[3] انجا، شمارِ غم نہ پوچھو
یہ مصرفِ تا بکَے نہیں ہے

جس دل میں کہ "تا بکَے" سما جائے
واں عزّتِ تختِ کَے نہیں ہے

ہستی ہے، نہ کچھ عَدم ہے، غالبؔ!
آخر تُو کیا ہے، ”اَے نہیں ہے؟”

  1. نسخہ نظامی، نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے میں بھی جو شاید مطبعِ احمدی دہلی چھپا تھا لفظ "تو" نہیں ہے (نسخۂ حامد میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے ج۔م۔) باقی تمام قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، تُو" موجود ہے۔ دو قدیم نسخوں میں "سی" کی جگہ "سے" بھی چھپا ہے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ عرشی: "رہوے" (حامد علی خاں)
  3. یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں (جویریہ مسعود