کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟ یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے گی وائے ناکامی! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے
عارضِ گُل دیکھ، رُوئے یار یاد آیا، اسدؔ! جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے