عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
دعوئی جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے

خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے
ہر شکستِ قیمتِ دل میں صدائے خندہ ہے

نقشِ عبرت در نظر ہا نقدِ عشرت در بساط
دو جہاں وسعت بقدرِ یک فضائے خندہ ہے
[1]

ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یک جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے

کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے

سوزشِ [2] باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے

جائے استہزا ہے عشرت کوشیِ ہستی اسدؔ
صبح و شبنم فرصتِ نشو و نمائے خندہ ہے

  1. نسخۂ حمیدیہ: تا شکستِ قیمتِ دل ہا صدائے خندہ ہے۔ (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ عرشی اور دوسرے مؤقر نسخوں میں یہاں "سوزش" کی جگہ "شورش" چھپا ہے۔ شاعر نے یقیناً "سوزشِ باطن" ہی کہا ہو گا کیونکہ احباب اس کے لب ہائے خنداں کو دیکھ کر اس کے غمِ پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لب کا تقابل "سوزشِ باطن" سے ہو سکتا ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ نظامی میں "سوزشِ باطن" ہی درج ہے۔ (حامد علی خاں)