روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہگزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ [1] لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی
بُھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستان کے ہم ولے کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی