ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر [1] لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے [2]
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم [3]
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے