مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے

جُز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے

جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ [1]
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے

  1. نسخۂ مہر میں "اسد" کی جگہ "مجھے" چھپا ہے مگر یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے صیغۂ جمع استعمال کیا ہے۔(حامد علی خاں)