آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشمِ مست کا شیشے میں نبضِ پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے