جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے

کس کا سراغِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے

ہے ذرہ ذرہ تنگیِ جا سے غبارِ شوق
گر دام یہ ہے و سعتِ صحرا شکار ہے

دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ
نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے

چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگِ گل پر آب
اے عندلیب وقتِ وداعِ بہار ہے

پچ آ پڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے

بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرّے کے [1] نقاب میں دل بے قرار ہے

اے عندلیب یک کفِ خس بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے

دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے

غفلت کفیلِ عمر و اسدؔ ضامنِ نشاط
اے مرگِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے

  1. نسخۂ طباطبائی میں " کی نقاب" چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یائے حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب کی تذکیر و تانیث کے بارے میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوہ بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے: زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھلا۔ (حامد علی خاں)