مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے