منقبت (حضرت علی کے لیے)

دہر جُز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

ہَرزہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستی و عدم
لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

نقشِ معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت
سخنِ حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں

لافِ دانش غلط و نفعِ عبارت معلوم!
دُردِ یک ساغرِ غفلت ہے۔ چہ دنیا و چہ دیں

مثلِ مضمونِ وفا باد بدستِ تسلیم
صورتِ نقشِ قدم خاک بہ فرقِ تمکیں

عشق بے ربطیِ شیرازۂ اجزائے حواس
وصل، زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں

کوہکن، گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے ستوں، آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں

کس نے دیکھا نفسِ اہلِ وفا آتش خیز
کس نے پایا اثرِ نالۂ دل ہائے حزیں!

سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں، لیکن
نہ سرو برگِ ستائش، نہ دماغِ نفریں

کس قدر ہَرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں

نقشِ لا حول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرتِ وسواسِ قریں

مظہرِ فیضِ [1] خدا، جان و دلِ ختمِ رسل
قبلۂ آلِ نبی (ص) ، کعبۂ ایجادِ یقیں

ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام
ہر کفِ خاک ہے واں گَردۂ تصویرِ زمیں

جلوہ پرداز ہو نقشِ قدم اس کا جس جا
وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں

نسبتِ نام سے اس کی ہے یہ رُتبہ کہ رہے
اَبَداً پُشتِ فلک خَم شدۂ نازِ زمیں

فیضِ خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا [2]
بوئے گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں

بُرّشِ تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں

کُفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں

جاں پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!
وصیِ ختمِ رسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں

جسمِ اطہر کو ترے دوشِ پیمبر منبر
نامِ نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں

کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں

آستاں پر ہے ترے جوہرِ آئینۂ سنگ
رَقَمِ بندگیِ حضرتِ جبریلِ امیں

تیرے در کے لیے [3] اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیئے جان و دل و دیں

تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لَوح و قلم دست و جبیں

کس سے ہو سکتی ہے مدّاحیِ ممدوحِ خدا
کس سے ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں!

ق

جنسِ بازارِ معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

شوخیِ عرضِ مطالِب میں ہے گستاخِ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں

دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں

غمِ شبّیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں

طبع کو الفتِ دُلدُل میں یہ سرگرمیِ شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں

دلِ الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں

صَرفِ اعدا اثرِ شعلۂ دودِ [4] دوزخ
وقفِ احباب گُل و سنبلِ فردوسِ بریں [5]

  1. نسخۂ مہر میں یہاں "مظہرِ ذات خدا" کے الفاظ درج ہیں۔ یہ الفاظ دوسرے کسی زیر نظر نسخے میں نہیں ملے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ مہر میں یہاں "سدا" کی جگہ "اسد" چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہو سکی۔ (حامد علی خان)
  3. نسخۂ عرشی: "کیے" (حامد علی خان)
  4. بعض اچھے نسخوں میں " شعلۂ دود دوزخ "چھپا ہے۔ " شعلۂ دود" بے محل بات ہے۔(حامد علی خان)
    مزید: نسخۂ حامد علی خان میں : "شعلہ و دود دوزخ" (جویریہ مسعود)
  5. بعض نسخوں میں " گُل و سنبل و فردوسِ بریں" کی عجیب و غریب ترکیب چھپی ہے۔ غالب نے "شعلہ و دودِ دوزخ" کا مقابلہ " گُل و سنبلِ فردوسِ بریں" سے کیا ہے۔ ۔(حامد علی خان)