زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟

مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں؟
غم سے جب ہو گئی ہے زیست [1] حرام

بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذّتِ دشنام

کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام

اس قدح کا ہے دَور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردشِ ایّام

چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام

کہ چکا میں تو سب کچھ، اب تُو کہ
اے پری چہرہ پیکِ تیز خرام

کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام

تُو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند مقام

قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہرِ ذوالجلال و الاکرام

شہسوارِ طریقۂ انصاف
نو بہارِ حدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیِ الہام

بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رستم و سام

اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام

چشمِ بد دور! خسروانہ شکُوہ
لوحش اللہ! عارفانہ کلام

جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم
جُرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام

وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیزن و رَہّام

مرحبا مو شگافیِ ناوک
آفریں آب داریِ صمصام

تیر کو تیرے تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری تیغِ خصم نیام

ق

رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام

تیرے فیلِ گراں جسد کی صدا
تیرے رخشِ سبک عناں کا خرام

ق

فنِ صورت گری میں تیرا گُرز
گر نہ رکھتا ہو دستگاہِ تمام

اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورتِ ادغام؟

جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہائے لیالی و ایّام

اور ان اوراق میں بہ کلکِ قضا
مجملاً مندرج ہوئے احکام

لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کُش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام

آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبدِ تیز گردِ نیلی فام

حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام

آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضعِ سوز و نم و رم و آرام

مہرِ رخشاں کا نام خسروِ روز
ماہِ تاباں کا اسم شحنۂ شام

تیری توقیعِ سلطنت کو بھی
دی بدستور صورتِ ارقام

کاتبِ حکم نے بموجبِ حکم
اس [2] رقم کو دیا طرازِ دوام

ہے ازل سے روانیِ [3] آغاز
ہو ابد تک رسائِی انجام

  1. نسخۂ مہر میں " غم سے زیست ہو گئی ہو حرام" یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ نظامی کی تقلید میں مستند نسخوں میں بھی یہاں" اُس" چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ "اِس رقم" میں اشارہ قریبی تحریرِ ما بعد یعنی آخری شعر کی طرف ہے۔ نظر بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خان)
  3. چند نسخوں میں "روائیِ" ہے۔ اکثر جگہ ’روانی‘ کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ (اعجاز عبید)
    مزید: بعض نسخوں میں "روائی" جگہ "روانیِ" چھپا ہے، غالب نے "رسائی" کے مقابلے میں "روائی" لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبائی۔ (حامد علی خان)
    مزید: ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں "روانی" کو ترجیح دی ہے۔ (جویریہ مسعود)