خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا

[1] خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ [2] جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اِس انداز کا گز بھر سِہرا

رُخ پہ دُولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر سِہرا

یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سِہرا

جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے پُھولوں کا بھی ایک مقرّر [3] سہرا

جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پُھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سِہرا

رُخ روشن کی دَمک، گوہرِ غلتاں [4] کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فرُوغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار
لائے گا تابِ گرانباریِ گوہر سِہرا!

ہم سُخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا! [5]

  1. غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ مہر میں " شہزادے" (ج۔م۔)
  3. نسخۂ حسرت میں "مکرر" چھپا ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ (حامد علی خان)
  4. اس کی ایک املا "غلطاں" بھی ہے (ج۔م۔)
  5. نسخۂ مہر میں یہ مصرع اس طرح درج ہے:
    دیکھیں، کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا!
    (ج۔م)
    مزید: محمد حسین آزاد کی آبِ حیات میں "بڑھ کر" کی جگہ بہتر" چھپا ہے مگر مروجہ نسخوں میں اختلاف ہے۔ معلوم نہیں کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (حامد علی خان)