خط منظوم بنام علائی

خوشی تو ہے آنے کی برسات کے [1]
پبیں بادۂ ناب اور آم کھائیں

سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں

سِوا ناج کے جو ہے مطلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں

وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں

فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار
کہو اس کو کیا کھا کے ہم حظ اُٹھائیں

  1. نسخۂ مہر میں مصرع یوں ہے: خوشی یہ آنے کی برسات کے (ج۔م)