دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ [1]
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ
مزید: اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا جو غالباً غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے "رک رک کر" کے بجائے صرف "رک کر" رکھ کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ س اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکالی گئی ہے۔ "دل رک کر بند ہو گیا" تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا "دل رک کر رک گیا "یا "دل بند کر بند ہو گیا"۔ غالب نے "دل رک رک کر" کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف ایک بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کاملاً بند ہو جانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعاً بے کیف رہ جاتا ہے۔ عروض خواہ کچھ کہے "رک کر" کو "رک رک کر" کی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ (حامد علی خان)