بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم

بسکہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع
پنجۂ خورشید کو سمجھتے ہیں دستِ شانہ ہم

نقش بندِ خاک ہے موج از فروغِ ماہتاب [1]
سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

مشقِ از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزارِ خیال
آشنا تعبیرِ خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم

فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں
جوں زبانِ شمع داغِ گرمیِ افسانہ ہم

جانتے ہیں جوششِ سودائے زلفِ یار میں
سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم

بسکہ وہ چشم و چراغِ محفلِ اغیار ہے
چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمعِ ماتم خانہ ہم

شامِ غم میں سوزِ عشقِ شمع رویاں سے اسدؔ [2]
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

  1. حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ: اس مصرع پر " لا لا" لکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجائے مصرعِ ذیل تحریر کیا ہے: ہے فروغِ ماہ سے ہر موج یک تصویرِ خاک۔ (جویریہ مسعود)
  2. اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں " سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے" بدلا گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع لکھا ہے:
    دائم الحبس اس میں ہے لاکھوں تمنائیں اسدؔ
    جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
    (حواشی از پروفیسر حمید احمد خان) (جویریہ مسعود)