[1] یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

بعد از وداعِ بہ خوں در طپیدہ [2] ہیں
نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفتِ بختِ سیاہ روز
گویا کہ تختۂ مشق ہے خطِّ غبار کے

حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگِ گل
مانندِ شبنم اشک ہے مژگانِ خار کے

آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے

ہم مشقِ فکرِ وصل و غمِ ہجر سے اسدؔ
لائق نہیں رہے ہیں غمِ روزگار کے

1.(اس غزل کے دو شعر اردو ویب کے نسخے میں 218 نمبر کے غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعود) 2. اس لفظ کی جدید املا تپیدہ ہے۔ (جویریہ مسعود)