[1] بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
ناخنِ انگشت تبخالِ لبِ بیمار ہے
زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے
در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست
صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے
جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے
ہے وہی بد مستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے [2]
بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر
گردِ صحرائے حرم تا کوچۂ زنّار ہے
اے سرِ شوریدہ نازِ عشق و پاسِ آبرو
یک طرف سودا و یک سو منتِ دستار ہے
وصل میں دل انتظارِ طرفہ رکھتا ہے مگر
فتنہ تاراجی تمنا کے لیے درکار ہے
ایک جا حرفِ وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے
خانماں ہا پائمالِ شوخیِ دعوٰی اسدؔ
سایۂ دیوار سے سیلابِ در و دیوار ہے
1.(اس غزل کے 6 شعر اردو ویب کے نسخے میں 174 نمبر غزل میں درج ہیں۔ جویریہ مسعود) 2. یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوئے ہیں (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان)