بے وفا کو عبث اِلزامِ جفا دینا تھا
ہم ہی بُھولے کہ تجھے دل سے بُھلا دینا تھا

حُسن و اُلفت میں نہیں تفرقہ فرد و دُوئی
جذب کامل کو یہ پردہ بھی اُٹھا دینا تھا

مُبتلا ہو کے ترے عشق کی سر مستی میں
دل سے نقشِ غمِ ہستی کو مِٹا دینا تھا

رسمِ فرہاد ہے دنیا میں ابھی تک زندہ
یہ تماشا بھی کبھی اُن کو دِکھا دینا تھا

ہو کے ناکام ہَوِس کار بنے کیوں اختر
یاد سلمیٰ میں جوانی کو گَنوا دینا تھا

مطبوعہ، خیالستان، لاہور، جنوری 1932ع
بعنوان "نوائے پریشان"