جھوم کر اُٹھّی ہے پھر کُہسار سے کالی گھٹا
کیسی مستانہ گھٹا ہے، کتنی متوالی گھٹا
دیکھنا کیسا یہ برکھا رُت نے جادو کر دیا
ہر کلی بجلی بنی ہے اور ہر ڈالی گھٹا
سبزہ و گُل جھومتے ہیں، دشت و گلشن مست ہیں
مے کدے برسا رہی ہے ہو کے متوالی گھٹا
چھائی ہے کس دھوم سے گلزار و کوہ و دشت پر
آہ یہ پہلی گھٹا، رنگیں گھٹا، کالی گھٹا
اُن کی زُلفِ مُشک بُو کی بُو چرا کر لائی ہے
ورنہ کیوں آتی ہے اِتراتی ہوئی کالی گھٹا
سبز مخمل سی بچھی جاتی ہے فرشِ خاک پر
ہر طرف لہکا رہی ہے کیسی ہریالی گھٹا
دل سے آتی ہیں صدائیں، بیخودیِ شوق میں
میرے سینے میں سما جائے یہ متوالی گھٹا
اُن کو بھی ہمراہ لے آتی تو کوئی بات تھی
ورنہ اختر سچ یہ ہے کس کام کی خالی گھٹا