وعدہ، اُس ماہ رُو کے آنے کا
یہ نصیبہ، سیاہ خانے کا!
کہہ رہی ہے نگاہِ دُزدیدہ
رُخ بدلنے کو ہے زمانے کا
ذرّے ذرّے میں بے حِجاب ہیں وہ
جن کو دعویٰ ہے منہ چُھپانے کا
حاصلِ عمر ہے شباب، مگر
اِک یہی وقت ہے گنوانے کا
چاندنی، خامشی اور آخرِ شب
آ کہ ہے وقت دل میں آنے کا
ہے قیامت ترے شباب کا رنگ
رنگ بدلے گا پھر زمانے کا
تیری آنکھوں کی ہو نہ ہو تقصیر
نام رُسوا شراب خانے کا
رہ گئے بن کے ہم سراپا غم
یہ نتیجہ ہے دل لگانے کا
جس کا ہر لفظ ہے سراپا غم
میں ہوں عنوان اُس فسانے کا
اُس کی بدلی ہوئی نظر، توبہ!
یوں بدلتا ہے رُخ زمانے کا
دیکھتے ہیں ہمیں، وہ چُھپ چُھپ کر
پردہ رہ جائے، منہ چُھپانے کا
کر دیا خُوگرِ ستم اختر
ہم پہ احسان ہے زمانے کا