حزیں ہے، بیکس و رنجُور ہے دل
محبّت پر مگر مجبور ہے دل

تمہارے نور سے معمور ہے دل
عجب کیا ہے کہ رشکِ طور ہے دل

تمہارے عشق سے مسرور ہے دل
ابھی تک درد سے معمور ہے دل

یہ کس کی مست آنکھیں یاد آئیں
کہ اِتنا مست ہے مخمور ہے دل

کیا ہے یاد اُس جانِ جہاں نے
اِلہٰی کس قدر مسرور ہے دل

بہت چاہا نہ جائیں تیرے در پر
مگر کیا کیجیے مجبور ہے دل

فقیری میں اِسے حاصل ہے شاہی
تمہارے عشق پر مغرور ہے دل

تیرے جلوے کاہے جس دن سے مسکن
جوابِ جلوہ گاہِ طور ہے دل

دو عالم کو بھلا دیں کیوں نہ اختر
کہ اُس کی یاد سے معمور ہے دل