تازہ بہ تازہ، نو بہ نو، جلوہ بہ جلوہ، چھائے جا

تازہ بہ تازہ، نو بہ نو، جلوہ بہ جلوہ، چھائے جا
پھولوں میں مسکرائے جا، تاروں میں جگمگائے جا

خواب و خیال کی طرح، آنکھ میں، دل میں آئے جا!
آنکھ کو بے قراریاں، دل کو جُنوں سِکھائے جا!

فتنۂ غم جگائے جا، حشر ستم اٹھائے جا!
نیچی نظر کیے ہوئے بام پہ مسکرائے جا!

ساقیِ دہر سے کہو، مستِ شرابِ غم ہیں ہم
شام و سحر پلائے جا، ظرف کو آزمائے جا!

میں ہوں وہ مست جس کو ہے کیف کی نُدرتوں کا ذوق
شام و سحر کے جام ہیں، شمس و قمر پلائے جا!

ہاں تجھے مجھ سے کیا غرض، میری خوشی سے کیا غرض
تُو تو نگاہ پھیر کر دور سے مسکرائے جا!

دورِ جہاں سے ساقیا، سرد ہُوا ہے دل میرا
برف و شراب کی جگہ، برق و شرر پلائے جا!

طُور خراب ہو نہ ہو، دید کی تاب ہو نہ ہو
کوئی جواب ہو نہ ہو، برق نظر گرائے جا!

دل کی رگوں میں مُطربہ، شعلے سے تیرنے لگے
بس یہی نغمہ گائے جا، بس اِسی دُھن میں گائے جا!

منزلِ ماہِ کہکشاں، وُسعت نیم گام ہے
عشق کی راہ میں یہی نغمۂ شوق گائے جا!

تیرے اور اُس کے درمیاں، تیری خودی حجاب ہے
اپنا نشان کھوئے جا، اُس کا مقام پائے جا!

بُھولنے کا خیال بھی ایک طرح کی یاد ہے
ہم نہ بھلائے جائیں گے، لاکھ ہمیں بھلائے جا!

نالۂ نیم شب میرا، سن کے کِسی نے دی صدا
طالب لذّت بقا، درد کو دل بنائے جا!

دل میرا سر بہ سر گُداز، تیری حیا عدوئے راز
مجھ سے بھی ضبط غم نہ ہو تو بھی نظر چُرائے جا!

سایۂ ابر ہے شباب، حاصلِ زندگی خراب
سازِ طرب بجائے جا، نغمۂ کیف گائے جا!

زندگیِ دوام کیا، مِنّتِ صبح و شام کیا
عمر ہے مختصر تو ہو، عمر طرب بڑھائے جا!

ہاں یونہی مُطربِ فراق، نغمۂ درد اِشتیاق
اُس کے تصوّرات سے سینے کو جگمگائے جا!

جام بہ جام، خم بہ خم، غنچہ بہ غنچہ، گُل بہ گل
نِکہت و رنگ لائے جا، نور و طرب پلائے جا

پردہ ہے عرضِ حال کا، نغمہ و شعر کی زباں
اخترِ غم نوا اُنہیں اپنی غزل سنائے جا!