آتی ہے جھومتی ہوئی بادِ بہارِ عید
مست طرب ہے آج ہر اِک مے گُسار عید

لایا ہلال مژدۂ بے اختیار عید
شکر خدا کہ پھر نظر آئی بہار عید

دنیا سرورِ نُور کی موجوں میں غرق ہے
کس درجہ جاں فزا ہے نسیم بہار عید

کوثر لٹاتی آتی ہیں مستانہ بدلیاں
ہاں تشنہ لب رہے نہ کوئی مے گسار عید

رحم اے ہوائے صبح، غریب الوطن ہیں ہم
ہم کو سنا نہ مژدۂ بے اختیارِ عید

معصوم بچّے جاگتے ہیں کس خوشی سے آج
گویا کہ ہیں ملائکِ شب زندہ دار عید

بچھڑی ہوئی سہیلیاں یوں ملتی ہیں گلے
ہو جس طرح کہ عید کوئی ہمکنارِ عید

اُن کی طرف گزر ہو تو کہ دینا اے نسیم
کرتا تھا یاد آج کوئی سوگوار عید

کیا ظلم ہے کہ عید پہ بھی تو خبر نہ لے
"عمرت دراز باد فراموش گارِ" عید

خلق خدا ہے خوش تو ہمیں کیا ہُوا کرے
ہم خستہ جاں تو ہجر میں ہیں دل فگار عید

اختر کا ہر تبسّمِ عریاں فریب ہے
اس پردۂ طرب میں نہاں ہے مزار عید

مطبوعہ ’عالمگیر، لاہور عید نمبر
"نیرنگ خیال" لاہور جنوری 1935ع

یہ غزل "نغمہ حرم" میں نظم کے طور پر بعنوان "عید" شامل تھی اس میں صرف 7 اشعار ہیں عالم گیر میں مقطع کے ساتھ 8 اشعار ہیں مگر مندرجہ بالا غزل میں مقطع بدل دیا گیا ہے نیز اِس میں اشعار زیادہ ہیں اس لئے اسے غزل کے طور پر رہنے دیا گیا۔ تینوں متون میں سے صرف "طیُور آوارہ" میں اشعار میں الفاظ اور مصرعوں میں ردّ و بدل کیا گیا ہے اس لئے یہ آخری متن بھی ہے نغمہ حرم میں البتہ یہ شعر زیادہ تھا جو اِس غزل میں نہیں ہے:

دوڑی خوشی کی لہر رگِ کائنات میں
ہر ذرّہ سے مچل پڑا کیف بہار عید

اِسی طرح عالم گیر کا مقطع یہ تھا:

اختر نے اب کے ایک بھی روزہ نہیں رکھا
حضرت کو حق ہی کیا ہے منائیں بہار عید

اسی طرح تینوں متون محفوظ ہو گئے ہیں (مرتّب)