گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم

گلزارِ جہاں میں گُل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کر صبحِ خزاں، سب ناز عبث اک خواب ہیں ہم

کِس ماہِ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم، بے تاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم، تاروں کی طرح بے خواب ہیں ہم

مٹ جانے پہ بھی مسرور ہیں ہم، مرجھانے پہ بھی شاداب ہیں ہم
شب ہائے شباب و عشق کا اک بھولا ہُوا رنگیں خواب ہیں ہم

فطرت کے جمال رنگیں سے ہم نے ہی اٹھائے ہیں پردے
بربط ہے اگر فردوس جہاں اس کے لیے اک مضراب ہیں ہم

خوش وقتی ہے وجہ رنج و الم گلزارِ جہاں میں اے ہمدم
طائر نہ پکاریں شاد ہیں ہم، غنچے نہ کہیں شاداب ہیں ہم

ملنے پہ گر آئیں کوئی مکاں خالی نہیں اپنے جلووں سے
اور گوشہ نشیں ہو جائیں اگر، کمیاب نہیں نایاب ہیں ہم

دو دن کے لئے ہم آئے ہیں، اک شب کی جوانی لائے ہیں
فردوس سرائے ہستی میں ہمرنگِ گل و مہتاب ہیں ہم

رُسوائی شعر و عشق نے وہ رتبہ ہمیں اختر بخشا ہے
فخرِ دکن و بنگال ہیں ہم، ناز اودھ و پنجاب ہیں ہم