پھر ستاتی ہے ہمیں گزری ہوئی راتوں کی یاد
آہ اُن راتوں کی یاد، اُن پیار کی باتوں کی یاد

رات کے پردوں میں چھپ چھپ کر جو ہوتی تھیں کبھی
چٹکیاں لیتی ہے دل میں اُن ملاقاتوں کی یاد

اب بھی آ کر گدگدا جاتی ہے بزم شوق کو
سایۂ گیسُو میں شرمائی ہوئی راتوں کی یاد

لہلہا اُٹھتی ہے سینے میں بہارِ بے خودی
جب کبھی آتی ہے اُن رنگین برساتوں کی یاد

سینے میں دردِ فراق آنکھوں میں جوشِ اشتیاق
اب بھی تڑپاتی ہے اُن غمگیں مناجاتوں کی یاد

عشق کی شادابیوں سے جو مہکتی تھیں کبھی
دل میں لہراتی ہے پھر اُن چاندنی راتوں کی یاد

کیا کہیں کس کس طرح اختر رلاتی ہے ہمیں
عشق کی راتوں کی، باتوں کی، ملاقاتوں کی یاد