غم خانۂ ہستی میں ہیں مہماں کوئی دن اور
کر لے ہمیں تقدیر پریشاں کوئی دن اور

مر جائیں گے جب ہم تو بہت یاد کرے گی
جی بھر کے ستا لے شب ہجراں کوئی دن اور

تربت وہ جگہ ہے کہ جہاں غم ہے نہ حیرت
حیرت کدہ غم میں ہیں حیراں کوئی دن اور

یاروں سے گلہ ہے نہ عزیزوں سے شکایت
تقدیر میں ہے حسرت و حرماں کوئی دن اور

پامال خزاں ہونے کو ہیں مست بہاریں
ہے سیر گل و حُسنِ گلستاں کوئی دن اور

ہم سا نہ ملے گا کوئی غم دوست جہاں میں
تڑپا لے غم گردشِ دوراں کوئی دن اور

قبروں کی جو راتیں ہیں وہ قبروں میں کٹیں گی
آباد ہیں یہ زندہ شبستاں کوئی دن اور

رنگینی و نزہت پہ نہ مغرور ہو بلبل
ہے رنگ بہار چمنستاں کوئی دن اور

آخر کو وہی ہم، وہی ظلمات شب غم
ہے نور رخ ماہِ درخشاں کوئی دن اور

آزاد ہوں عالم سے تو آزاد ہوں غم سے
دنیا ہے ہمارے لئے زنداں کوئی دن اور

ہستی کبھی قدرت کا اک احسان تھی ہم پر
اب ہم پہ ہے قدرت کا یہ احساں کوئی دن اور

لعنت تھی گناہوں کی ندامت مرے حق میں
ہے شکر کے اس سے ہوں پریشاں کوئی دن اور

شیون کو کوئی خلد بریں میں یہ خبر دے
دنیا میں اب اختر بھی ہے مہماں کوئی دن اور