شعر میں ذکر کسی کا دلِ ناکام نہ کر
اُس نے لکھا ہے کہ یُوں تو ہمیں بدنام نہ کر
ہر ہوس پیشہ کو ہو جائے نہ الفت کا گماں
اپنے الطاف کو او جانِ جہاں عام نہ کر
ہر قدم آگے بڑھے ہمّتِ مردانۂ دل
عشق کی راہ میں فکرِ سحر و شام نہ کر
جس نے خود عشق کا آغاز کیا ہے یارب
کاش یہ بھی وہی کہہ دے غمِ انجام نہ کر
کوئی ہمدرد ہو کیسے کسی کمزوری کا
دلِ ناداں گلۂ گردشِ ایّام نہ کر!
حشر میں ملنے کی امید تھی وہ بھی نہ رہی
وہ یہ کہتی ہیں کہ ناحق طمعِ خام نہ کر
غیرتِ حُسن کو منظور نہیں رسوائی
ضبط اے عشق اِس افسانے کو یُوں عام نہ کر
آج ہی آج کے دم سے ہے بہارِ ہستی
فکرِ فردا نہ کر، اندیشۂ انجام نہ کر!
ناز سے گیسوئے سلمیٰ پہ بڑھا ہاتھ اختر
یُوں گدایانہ تماشائے لبِ بام نہ کر