سوز پِھر چھیڑتا ہے رُوح کا ساز
ذرّہ ذرّہ ہے اِک نوائے گداز
دل نے کھائے بہت فریبِ مجاز
آہ او فطرتِ بہانہ طراز!
قبر پر آیا ہے وہ پیکرِ ناز
عُمرِ رفتہ کو دے کوئی آواز
زندگی کی حقیقت آہ نہ پوچھ
موت کی وادیوں میں اِک آواز!
آہ او عُمرِ رفتہ، تنہا ہوں
موت کی گھاٹیوں سے دے آواز!
آج کہتے ہیں مر گیا اختر
آہ وہ عِشق پیشہ شعر طراز
مطبوعہ "ساقی" دہلی اگست 1930ء
بعنوان "نذر غالب"
ساقی میں یہ غزل نو اشعار پر مشتمل تھی طیورِ آوارہ میں شامل کرتے ہوئے اختر نے تین اشعار محذوف کر دیئے جو یہ ہیں:
زندگی آہ زندگی دھوکا!
خواب یا ایک خواب کی آواز
دل ہے یا بے قرار سینے میں
ایک تارِ شکستہ کی آواز
گونجتی ہے حریم عرش میں بھی
دل کے ساز شکستہ کی آواز