ہر ذرّہ اُس کے حُسن سے روشن ہَے آج کل
امرتسر ایک وادیِ ایمن ہے آج کل
اُس حُسن بے پناہ نے بے خانماں کیا
جو رہنُما تھا عشق میں رہزن ہے آج کل
جس آستاں کو سجدۂ پرویں بھی بار تھا
وہ آستاں جبیں کا نشیمن ہے آج کل
راتوں پہ چاندنی ہے فضا پُر بہار ہے
وحشت ہے، ہم ہیں، دامنِ گلشن ہے آج کل
ہر گام پر سرورِ ابد کی تجلّیاں
عالم تمام عالمِ ایمن ہے آج کل
پھر بوئے گل سے آتی ہے اُس گُل بدن کی بُو
پھر دل میں بے خودی کا نشیمن ہے آج کل
بعد از غمِ جدائیِ عذرا مرے لئے
یاد زبُور [1] و ماتمِ شیون [2] ہے آج کل
پیرِ فلک نے عیش کے بدلے دیا ہے غم
جو دوست تھا کبھی وہی دشمن ہے آج کل
چشمِ قمر کو بھی مرے خوابوں پہ رشک ہے
پیشِ نظر ترا رُخِ روشن ہے آج کل
کس نو بہارِ ناز نے جلوہ دکھا دیا
لبریز گُل نگاہ کا دامن ہے آج کل
اپنے نیاز پر مجھے پھر ہو چلا ہے ناز
اِک مہ جبیں کے سینے میں مسکن ہے آج کل
پھر خُلد بن گئی ہے خدائی مرے لئے
اِک حور وش کے دل میں نشیمن ہے آج کل
اختر پھرے نہ کس لئے آوارہ سا یہاں
امرتسر اُس پری کا نشیمن ہے آج کل
مطبوعہ "رومان" لاہور نومبر 1936ع