یقینِ وعدہ نہیں، تابِ انتظار نہیں
کسی طرح بھی دلِ زار کو قرار نہیں
شبوں کو خواب نہیں، خواب کو قرار نہیں
کہ زیبِ دوش وہ گیسوئے مشکبار نہیں
کلی کلی میں سمائی ہے نکہتِ سلمیٰ
شمیمِ حُور ہے یہ بُوئے نو بہار نہیں
کہاں کہاں نہ ہوئے ماہ رُو جُدا مجھ سے
کہاں کہاں مری اُمّید کا مزار نہیں
غموں کی فصل، ہمیشہ رہی تر و تازہ
یہ وہ خزاں ہے کہ شرمندۂ بہار نہیں
بہار آئی ہے ایسے میں تم بھی آ جاؤ
کہ زندگی کا، برنگ گُل اعتبار نہیں
کسی کی زلفِ پریشاں کا سایہ رقصاں ہے
فضا میں بال فشاں، ابرِ نو بہار نہیں
ستارہ وار وہ پہلو میں آ گئے شب کو
سحر سے کہہ دو کہ محفل میں آج بار نہیں
گُلِ فسردہ بھی اِک طرفہ حُسن رکھتا ہے
خزاں یہ ہے تو مجھے حسرتِ بہار نہیں
ہر ایک جام پہ، یہ نغمۂ حزیں ساقی!
"کہ اِس جوانیِ فانی کا اعتبار نہیں"!
خدا نے بخش دیئے میرے دل کو غم اِتنے
کہ اب میں اپنے گناہوں پہ شرمسار نہیں
چمن کی چاندنی راتیں ہیں کس قدر ویراں
کہ اِس بہار میں وہ ماہِ نو بہار نہیں
شریک سوز ہیں پروانے، شمع کے اختر
ہمارے دل کا مگر کوئی غمگسار نہیں