عید آئی آ کہ ساقی، عید کا ساماں کریں
دن ہے قربانی کا، ہم بھی توبہ کو قرباں کریں
میکدے کے بام پر چڑھ کر اذانِ شوق دیں
مست ہیں، یوں پیرویِ شیوۂ ایماں کریں
انجم و گُل سے کریں آراستہ بزمِ طرب
ساغرِ ناپید کو اس بزم میں رقصاں کریں
ناز ہے زاہد کو جس زُہدِ ریائی پر اُسے
مہوشانِ میکدہ کے سامنے عریاں کریں
صحنِ میخانہ نہیں، یہ عید گاہِ شوق ہے
دُھوم سے رِندو، نمازِ شوق کا ساماں کریں
جس کو سُن کر وجد میں آ جائے دیوارِ حرم
میکدے میں آج ہم اُس راز کو عُریاں کریں
پھر لبِ مینا سے چھلکائیں رسیلی بجلیاں
پھر متاعِ غم کو نذرِ شعلۂ عُریاں کریں
ایک جانب غُنچہ افشاں ہو، چراغاں کی بہار
یک جانب آتشیں گُل کو شرر افشاں کریں
اِک طرف تازہ کریں ہنگامہ ہائے ناؤ نوش
اِک طرف برپا سرودِ نغمہ کے ساماں کریں
لالہ و گُل سے چھپا دیں ساغر و پیمانہ کو
یُوں عروسِ بادہ کی تزئین کا ساماں کریں
ہے گراں، غم خانۂ ہستی میں ذوق بے خودی
خُم کے خُم چھلکا کے ہم اس ذوق کو ارزاں کریں
نازنینانِ حرم کی یاد میں اک شوخ کو
فرشِ گُلہائے بہار آلود پر رقصاں کریں
منزلِ جاناں تک اختر ہم پہنچ ہی جائیں گے
پہلے اپنی جاں کو تو خاکِ رہِ جاناں کریں