وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بُھلا دیں
محبّت کریں، خوش رہیں، مسکرا دیں

غرور اور ہمارا غرورِ محبّت
مہ و مہر کو اُن کے در پر جُھکا دیں

جوانی ہو گر جاودانی تو یارب
تری سادہ دُنیا کو جنّت بنا دیں

شبِ وصل کی بے خودی چھا رہی ہے
کہو تو ستاروں کی شمعیں بُجھا دیں

بہاریں سمٹ آئیں، کِھل جائیں کلیاں
جو ہم تُم چمن میں کبھی مُسکرا دیں

عبادت ہے اِک بے خودی سے عبارت
حرم کو مئے مُشک و بُو سے بسا دیں

وہ آئیں گے آج اے بہارِ محبت
ستاروں کے بستر پہ کلیاں بچھا دیں

بناتا ہے منہ تلخیِ مہ سے زاہد!
تجھے باغِ رضواں سے کوثر منگا دیں

جنہیں عمر بھر یاد آنا سِکھایا
وہ دل سے تری یاد کیوں کر بُھلا دیں؟

تم افسانۂ قیس کیا پُوچھتے ہو
اِدھر آؤ، ہم تُم کو لیلیٰ بنا دیں

یہ بے دردیاں کب تک اے دردِ غربت؟
بُتوں کو پھر ارض حرم میں بسا دیں

وہ سر مستیاں بخش اے رشکِ شیریں
کہ خُسرو کو خوابِ عدم سے جگا دیں

ترے وصل کی بے خودی کہہ رہی ہے
خدائی تو کیا ہم خُدا کو بُھلا دیں

اُنہیں اپنی صورت پہ یُوں ناز کب تھا
مرے عشقِ رُسوا کو اختر دُعا دیں