عُمر بھر کی تلخ بیداری کا ساماں ہو گئیں [1]
ہائے وہ راتیں کہ جو خواب پریشاں ہو گئیں

میں فدا اُس چاند سے چہرے پہ جِس کے نُور سے [2]
میرے خوابوں کی فضائیں، یوسفستاں ہو گئیں

عُمر بھر کم بخت پھر نیند آ سکتی نہیں
جِس کی آنکھوں [3] پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں

دل کے پردوں میں تھیں جو جو حسرتیں پردہ نشیں
آج وہ آنکھوں میں آنسو بن کے عُریاں ہو گئیں

کُچھ تُجھے بھی ہے خبر او سونے والے ناز سے
میری راتیں لُٹ گئیں، نیندیں پریشاں ہو گئیں

ہائے وہ مایوسیوں میں میری اُمّیدوں کا رنگ
جو ستاروں کی طرح اُٹھ اُٹھ کے پِنہاں ہو گئیں

بس کرو، او میری رونے والی آنکھو، بس کرو
اب تو اپنے ظلم پر وہ بھی پشیماں ہو گئیں

آہ، وہ دن، جو نہ آئے پھر گزر جانے کے بعد
ہائے وہ راتیں کہ جو خوابِ پریشاں ہو گئیں

گُلشنِ دل میں کہاں اختر وہ رنگِ نَو بہار [4]
آرزوئیں چند کلیاں تھیں پریشاں ہو گئیں

مطبوعہ "خیالستان" لاہور اگست1931ع
بعنوان "نوائے آوارہ"

  1. یہ غزل خیالستان میں 7 اشعار پر مشتمل تھی طیور آوارہ میں شامل کرتے وقت شعر نمبر4 اور 8 کا اضافہ کیا گیا۔ اشعار کی ترتیب بدلی گئی اور چند لفظی اصلاحات کی گئیں۔
  2. میں فدا ان چاند سے جلووں کے جن کے نور سے (خیالستان)
  3. جس کے سینے پر (خیالستان)
  4. اب کہاں اختر جوانی کی وہ فصلِ نو بہار(خیالستان)