جو بَہاروں میں نِہاں رنگِ خزاں دیکھتے ہیں
دیدۂ دل سے وہی سیرِ جہاں دیکھتے ہیں
ایک پردہ ہے غموں کا، جسے کہتے ہیں خوشی
ہم تبسّم میں نہاں، اشکِ رواں دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے کیا رنگ جہاں نے بدلے
دیدۂ اشک سے نیرنگِ جہاں دیکھتے ہیں
رات ہی رات کی مہماں تھی بہارِ رنگیں
پھر وہی صبح، وہی جورِ خزاں دیکھتے ہیں
ہر مسرّت ہے غمِ تازہ کی تمہید اے دل
نغمۂ شوق میں آثارِ فُغاں دیکھتے ہیں
دل میں جینے کی تمنّا نہیں باقی اختر
کوئی دِن اور تماشائے جہاں دیکھتے ہیں